ترک بغاوت:’صدر کو پکڑنے کے لیے جانے والے فوجی گرفتار‘
ترک حکام نے کچھ ایسے فوجی کمانڈوز کو حراست میں لے لیا ہے جن پر شبہ ہے کہ انھیں دو ہفتے قبل ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے وقت صدر رجب طیب اردوغان کو پکڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
15 جولائی کی شب ہونے والی بغاوت کی کوشش کے وقت صدر اردوغان ملک کے جنوب مغربی تفریحی مقام مارمارس میں موجود تھے تاہم انھوں نے اپنے ہوٹل پر چھاپے سے قبل ہی وہ جگہ چھوڑ دی تھی۔
یہ افراد بھگوڑے ہو گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق ترک سپیشل فورسز نے ان فوجیوں کو مارمارس کے نزدیک ایک جنگل سے حراست میں لیا۔
اطلاعات کے مطابق جنگل میں چھپے باغی فوجیوں کو مقامی دیہاتیوں نے اس وقت دیکھا جب وہ وہاں شکار کر رہے تھے۔
ان فوجیوں کی گرفتاری کے لیے کی جانے والی کارروائی کے دوران فائرنگ بھی ہوئی تاہم کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اناتولو نیوز ایجنسی کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب گرفتار کیے جانے والے ان فوجیوں کی تعداد 11 ہے اور ان میں میجر سکرو سیمن بھی شامل ہیں جو اس دستے کے کمانڈر تھے۔
ترک خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں شامل فوجی سکواڈ کے 20 دیگر ارکان پہلے ہی گرفتار کیے جا چکے ہیں اور مقدمہ چلائے جانے کے منتظر ہیں۔
خیال رہے کہ ناکام بغاوت کی رات صدر اردوغان نے اپنے موبائل فون کی مدد سے ٹی وی پر دیے گئے پیغام میں کہا تھا کہ وہ بمشکل جان بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد سے ترکی میں اس عمل میں ملوث افراد کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن جاری ہے۔
اس کریک ڈاؤن کے دوران اب تک ملک کی فوج، عدلیہ، سول سروس اور محکمۂ تعلیم سے دسیوں ہزاروں افراد کو برطرف، معطل اور گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 50 ہزار سے زیادہ افراد کے پاسپورٹ منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے 142 اداروں کو بند کیا جا چکا ہےاور متعدد صحافی بھی زیرِ حراست ہیں۔
ترک حکام امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کو اس بغاوت کی کوشش کا منصوبہ ساز قرار دیتے ہیں تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔.