’سعودی عرب میں دس ہزار ہندوستانی فاقہ کشی پر مجبور‘
انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ دس ہزار ہندوستانی شہری سعودی عرب میں کھانے کی قلت کا شکار ہیں۔
اس سے پہلے ایسی خبریں آئی تھیں کہ وہاں 800 انڈین فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔
انڈین وزیر خارجہ نے ٹویٹ کے ذریعے سعودی عرب میں رہنے والے 30 لاکھ ہندوستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے انڈین بھائی بہنوں کی مدد کریں۔
خیال رہے کہ خلیجی ممالک میں بڑی تعداد میں بھارتی نوکری کرتے ہیں۔ دراصل گذشتہ چند مہینوں کے دوران بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو مسائل درپیش ہیں۔
سعودی عرب میں بہت سی کمپنیاں بند ہو گئی ہیں اور وہاں موجود کئی بھارتی بے روزگار ہو گئے ہیں یا پھر انہیں تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔
وزیر خارجہ کے مطابق ’کسی بھی ملک کی اجتماعی کوششوں سے بڑا کچھ نہیں ہوتا۔ جدہ میں ہندوستانی قونصل خانے اور ہندوستانی شہریوں کی کوششوں سے لوگوں میں 15 ہزار کلو سے زیادہ کھانے پینے کا سامان تقسیم کیا گیا ہے۔‘
اس سے پہلے ایک شخص عمران کھوکھر نے ٹوئٹر پر وزیر خارجہ سشما سوراج کو معلومات دی تھی کہ سعودی عرب کے جدہ میں گذشتہ تین دنوں سے تقریبا 800 بھارتی بھوکے پیاسے پھنسے ہوئے ہیں۔
اس ٹویٹ کے جواب میں سشما نے کہا تھا کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے وزیر مملکت وی کے سنگھ سعودی عرب جا رہے ہیں۔
بھارتی سفارت خانے کو بے روزگار بھارتی کارکنوں کو مفت کھانا فراہم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
اس سے پہلے سشما سوراج نے ٹویٹ کیا تھا: ’میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ سعودی عرب میں کوئی بھی بے روزگار بھارتی بھوکا نہیں رہے گا۔ حالات پر ہمہ وقت ہماری نظر ہے۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خلیجی ممالک سعودی عرب، بحرین، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات اور عمان میں 60 لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں۔
سنیچر کو ریاست راجستھان میں چورو کے اقبال خان نے جدہ سے فون پر بی بی سی کی نامہ نگار سوشیلا سنگھ سے اس بارے میں بات کی تھی۔
انھوں نے بتایا تھا ’میں جدہ میں گھر کی رکھوالی کا کام کرتا ہوں۔ سات ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے، 10 دن سے کھانا بھی بند ہے۔ جو گھر جانا چاہ رہے ہیں، ان کو گھر بھی نہیں جانے دے رہے ہیں۔ پینے کا پانی بھی نہیں ہے، نہانے کا پانی ہی پی رہے ہیں۔ بھارتی سفارت خانے نے آج کھانے کا انتظام کیا ہے۔‘
اقبال نے بتایا کہ جدہ میں کئی ہندوستانی اس پریشانی سے دو چار ہیں اور زیادہ تر کنسٹرکشن کے کام سے منسلک ہیں۔
گھر واپسی کے سوال پر انھوں نے کہا: ’پیسہ کمپنی کے پاس جمع ہے، اور کمپنی کا کوئی ملازم نظر بھی نہیں آ